Page Nav

HIDE

Pages

Grid

GRID_STYLE
TRUE
RTL

Classic Header

{fbt_classic_header}

ASWJ - Ahle Sunnat Wal Jamaat Balochistan (Known as SSP / Sipah e Sahaba (RA) Pakistan) Official Website

Breaking News

latest

کیا سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا؟

کیا سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا؟ تاريخى كتابوں ميں منقول ہے جيسا كہ الرحيق ال...

Related Post


کیا سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا؟


تاريخى كتابوں ميں منقول ہے جيسا كہ الرحيق المختوم ميں بهى لكها ہے كہ ہند بنت عتبہ نے حمزه رضى الله عنہ كا كليجہ چاك كرديا اور منہ ميں ڈال كرچبايا اور نگلنا چاہا ليكن نگل نہ سكى تو تهوك ديا، اور كٹےہوئے كانوں اور ناكوں كا پازيب اور ہار بنايا۔ 

روايت پر تبصره:

سچ یہ ھے کہ اس قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ روایت چند کتب احادیث تاریخ و تفاسیر میں وارد ہوئی ھے مگر اسکی سند منقطع ھے۔ یعنی یہ روایت مرسل ضعیف ھے۔

ابن كثير نے البدايہ والنہايہ ميں بغير سند كے نقل كيا ہے جو كہ ضعيف ہے۔

ابن ہشام نے منقطع سند كے ساتھ نقل كيا ہے اور يہ بهى ضعيف ہے۔

واقدى كى ايك روايت سخت ضعيف ہے۔

 دوسرے يہ كہ حقائق کے برعکس ہونے کے باعث اسکا متن منکر ھے۔ سب سے پہلے ہم مذکورہ روایت کو دیکھتے ہیں:

ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے اپنی تاریخ میں ابن اسحاق سے بھی نقل کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ھند نے عورتوں کے ساتھ ملکر مثلہ کیا ، جبکہ ابن کثیر والی روایت میں ‌ہے کہ وحشی نے کلیجہ نکال کر ہند کو دیا تھا ۔ جبکہ دونوں روایتیں ہی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔


 یہ خبر بھی پڑھیں

مرکزی صدر سنی علماء کونسل پاکستان حضرت علامہ غازی اورنگزیب فاروقی صاحب کا دورہ بلوچستان 2022


حقیقت یہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا کوئی کردار نہ تھا۔ نیز اس ضمن میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے سیدہ ہند رضی الله عنہا کی کوئی بات یا معاملہ طے نہ ہوا تھا۔ اور نہ ہی حضرت وحشی رضی اللہ عنہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے غلام تھے جیسا کہ دشمنان صحابہ روافض نے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ 

سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ طعیمہ بن عدی کے بھتیجے تھے، جو کہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ حضرت وحشیؓ، جناب جبیر بن مطعم ؓکے غلام تھے۔ سیدنا جبیر بن مطعمؓ حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان ایمان لائے اور خلافت معاویہؓ میں فوت ہوئے۔ آپؓ نے حضرت وحشیؓ سے کہا کہ حمزہؓ نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا ہے، اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہؓ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو۔ یہی وجہ تھی جس نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیں۔

اسی بات کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ”کتاب المغازی“ کے عنوان ”قتل حمزة بن عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہ“ کے تحت بیان کیا ہے۔

اب یہ بھی دیکھیں کہ سیدنا وحشی رضی اللہ عنہ جب خدمت رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مشرف بہ اسلام ہونا قبول كرتے ہوئے فرمایا کہ آپؓ اپنا چہرہ میرے سامنے نہ لایا کریں (الاصابة فی تمییزالصحابة)۔ لیکن اس کے برعکس جب سیدہ ہند رضی اللہ عنہا اسلام لاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ ہندؓ کے مابین ہونے والی فصیحانہ و بلیغانہ گفتگو کا تذکرہ بھی کتب میں موجود ہے۔ کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ہند رضی اللہ عنہا سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حوالہ سے کوئی بات نہیں فرمائی؟ جب کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ چھپانے کے لیے فرمایا۔


شیعوں کی گستاخیاں شیعہ کتابوں میں || کیا اب بھی شیعہ مسلمان ہیں؟


حالانکہ سیدہ ہند بنت عتبہ کا جرم قتل سے بھی سنگین تر تھا۔ شہید کی لاش کا مثلہ کرنا، کلیجہ نکال کر چبانا۔۔۔ اگر ان سے یہ جرم سرزد ہوا جس پر روایتی طور پر بحث ہوچکی کہ ستر سال کے بعد ابن اسحاق نے صالح بن کیسان کے نام سے ایک منقطع روایت پیش کی تو اس مجرم سے بھی اظہار نفرت ہونا چاہئے تھا ناں؟

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محبوب عم محترم کے مقدس جسد کا مثلہ کرنے والی کے گھر کو ”من دخل دار ابی سفیان فہو اٰمن“ دار ابی سفیان کو مثل حرم جائے پناہ قرار دیا گیا۔ چہ معنی دارد؟


یہ خبر بھی پڑھیں

 مزید برآں فتح مکہ کے بعد نبی مکرم کے دست مقدس پر بیعت کرنے کے بعد سیدہ ہندہ کا عرض کرنا کہ :”یا رسول اللہ! آج سے پہلے روئے زمین پر آپ سے زیادہ مجھے مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں“۔ یہ تو الفاظ تھے سیدہ ہندہ کے۔ جواب میں سيد الانبیاء علیہم السلام نے کیا فرمایا ِ؟”وایضاً والذی نفسی بیدہ“ ” اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرا بھی یہی حال ہے“. (یعنی سیدہ ہندہ کی عزت وحرمت محبوب ہے) عام محبت نہیں بلکہ ایسی شدید محبت کہ نبی دوعالم قسم کھا کر اس کا ذکر فرمارہے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا: ”تو نے میرے محبوب چچا کا کلیجہ چبایا ہے، میرے سامنے نہ آیا کر ۔ بس تیرا اسلام قبول ہے“ یہ نہیں فرمایا،  بلکہ قسم کھاکر محبت کا اظہار فرمایا۔ فتح مکہ کے بعد بہت لوگ ایمان لائے مگر محبت وعقیدت سے بھر پور وہ الفاظ ”وایضا والذی نفسی بیدہ“ کسی اور ذکر وانثی کو نصیب نہ ہوسکے۔ امام بخاری نے یہاں عنوان قائم کیا ہے: ”باب ذكر  ہند بنت عتبہ“. عن عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ اليَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، قَالَ: «وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟ قَالَ: «لاَ أُرَاهُ إِلَّا بِالْمَعْرُوفِ» صحيح بخارى : كتاب مناقب الانصار، باب ذكر هند بنت عتبہ ترجمہ: عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس میں ابھی اور ترقی ہو گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے“ پھر ہند نے کہا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بہت بخیل ہیں تو کیا اس میں کچھ حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے (ان کی اجازت کے بغیر) بال بچوں کو کھلا دیا اور پلا دیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ہاں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستور کے مطابق ہونا چاہئے۔

سيده ہنده نے رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم  سے اسلام پر بيعت كيا۔

بيعت كے دوران ايك شرط پر سوال بهى كيا۔

اسكے بعد رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم  سے اپنى محبت كا اظہار كيا۔

اسكے بعد رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم  نے ان سے اپنى محبت كا اظہار كيا۔

پهر سيده ہنده نے  رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم  سے فتوى پوچها اور آپ نے اسكا جواب ديا۔

گويا اسلام لانے كے بعد كہيں كسى طرح كى ناگوارى كا اظہار نہيں ہے بلكہ ايك دوسرے سے محبت كا اظہار ہے، پلس رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم  نے انكے گهر كو دار الامن قرار ديا ۔


یہ خبر بھی پڑھیں

حقيقت يہى ہے كہ سيدنا حمزه كى شہادت ميں سيده  ہنده كا كوئى ہاتھ نہيں ہے ، يہ صرف رافضى شيعوں اور سبائيوں كا من گھڑت قصہ ہے۔ جو ہميشہ بنو اميہ كو بنو ہاشم كا دشمن بناكر دكهانے كى كوشش كرتےرہےہيں تاكہ صحابہ كى ساكھ كمزور ہو اور كتاب وسنت  كى  بنياديں ہل جائيں ليكن كتاب وسنت كے  متوالے جب تك زنده ہيں مجوسى رافضيوں اور دشمنان اسلام كے مذموم ارادوں كو پورا نہيں ہونے ديں گے۔ 

حمزه كے بدن كا كوئى حصہ جہنم ميں نہيں جاسكتا؟ 

ايك روايت ميں ہے كہ رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم  نے پوچها كہ ہنده نے كچھ كهايا تها يا نہيں تو بتايا گيا كہ نہيں كهاسكى ہے، تو آپ صلى الله عليہ وسلم  نے فرمايا: وه كها بهى نہيں سكتى تهى ، حمزه كے بدن كا كوئى حصہ جہنم ميں نہيں جاسكتا ۔ 

يہ مسند احمد (6/191) كےاندر ہے مگر روايت سخت ضعيف ہے۔ ابن كثير اور علامہ البانى نے اسے ضعيف كہاہے۔

اسى روايت كے اندر ہے كہ آپ نے حمزه پر ستر نماز جنازه پڑهى جبكہ صحيح روايتوں سے ايك بهى ثابت نہيں ہے۔

اور اگر متن كے اعتبار سے ديكهيں تو آخر آپ يہ كيسے كہہ سكتےہيں كہ انكے جسم كا كوئى حصہ جہنم ميں نہيں جاسكتا ، مطلب اس سے لازم آتاہے كہ ہنده جہنمى ہيں جبكہ وه اسلام لائى تهيں، اور ايك جليل القدر صحابيہ تهيں۔ يقينا  اس ميں سبائى روافض كا ہاتھ ہے۔

ايك روايت ميں  يہ بهى آتاہے كہ حمزه كى لاش كو ديكھ كررسول اكرم  صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: اگر كفار ِمكہ پر كبهى غلبہ ملا تو انكے تيس آدميوں كا مثلہ كروں گا۔ مگر يہ روايت بهى ثابت نہيں ہے۔

حوالہ: تاریخ اسلامی حقیقت کے آئینے میں، اجمل منظور ، حصہ اول، ص ۳۷۲



Ahle Sunnat Wal Jamaat Balochistan
اہلسنت میڈیا بلوچستان
aswj

No comments

5359958766365190473