Page Nav

HIDE

Pages

Grid

GRID_STYLE
TRUE
RTL

Classic Header

{fbt_classic_header}

ASWJ - Ahle Sunnat Wal Jamaat Balochistan (Known as SSP / Sipah e Sahaba (RA) Pakistan) Official Website

Breaking News

latest

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام - aswj balochistan

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام دینِ اسلام کا منبع اور سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے، جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ...

Related Post

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام

دینِ اسلام کا منبع اور سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے، جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، خواہ وہ وحیِ الٰہی قرآن کریم کی صورت میں ہو یا سنتِ رسول اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی صورت میں ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس وحیِ الٰہی اور دینِ اسلام کو لینے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ ہی نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسی مقدس جماعت کو حضور اکرم   (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت، تعلیم اور تلقین کے لیے منتخب فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اسلام اور شریعتِ اسلام میں خاص مقام ہے۔ یہ ایک ایسی مقدس جماعت ہے جو رسول اللہ   (صلی اللہ علیہ وسلم) اور عام اُمت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک واسطہ ہے۔ اس واسطہ کے بغیر نہ اُمت کو قرآن کریم ہاتھ آسکتا ہے، نہ قرآن کریم کے وہ مضامین جن کو قرآن نے رسول اللہ   (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیان پر یہ کہہ کر چھوڑا ہے: ’’لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْہِمْ‘‘ (النحل:۴۴) ۔۔۔۔ ’’آپ بیان کریں لوگوں کے لیے وہ چیز جو آپ کی طرف نازل کی گئی۔‘‘ اور نہ ہی رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطہ کے بغیر علم ہوسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کو دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی آل اولاد اور اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ارشاد فرمایا: 

۱:- ’’وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ، أُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔‘‘ (الحجرات:۷)

ترجمہ: ’’پر اللہ نے محبت ڈال دی تمہارے دل میں ایمان کی اور کھبادیا (اچھا دکھایا) اس کو تمہارے دلوں میں اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر اور گناہ اور نافرمانی کی، وہ لوگ وہی ہیں نیک ۔‘‘

۲:-’’ أُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۔‘‘(المجادلۃ:۲۲)

ترجمہ:’’ان کے دلوں میں اللہ نے لکھ دیا ہے ایمان اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے ۔ ‘‘

۳:-’’وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۔‘‘ (التوبۃ:۱۰۰)

ترجمہ:’’اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ، اللہ راضی ہوا اُن سے اور وہ راضی ہوئے اُس سے ۔‘‘

۴:-’’فَإِنْ أٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا أٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا۔‘‘(البقرۃ:۱۳۷)

ترجمہ: ’’سو اگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح تم ایمان لائے ہدایت پائی انہوں نے بھی۔‘‘

۵:-’’کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰)

ترجمہ:’’تم ہو بہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں۔‘‘

۶:- ’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا۔‘‘  (البقرۃ:۱۴۳)

ترجمہ:’’اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو اُمت معتدل۔‘‘

آیت: ۵ اور ۶ کے اصل مخاطب اور پہلے مصداق صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔

۷:- ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ۔‘‘ (الفتح:۲۹)

ترجمہ:’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول اللہ کا اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ، ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی ، نشانی (پہچان، شناخت) ان کی اُن کے منہ پر ہے سجدہ کے اثر سے۔‘‘

اس آیت میں ’’وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ‘‘ عام ہے، اس میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں، اس میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تزکیہ اور ان کی مدح وثنا خود مالکِ کائنات کی طرف سے آئی ہے۔

۸:- ’’یَوْمَ لَایُخْزِیْ اللّٰہُ النَّبِيَّ وَالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مَعَہٗ۔‘‘ (التحریم:۸)

ترجمہ:’’جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور ان لوگوں کو جو یقین لائے ہیں اس کے ساتھ۔‘‘

۹:- ’’قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِيْ أَدْعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۔‘‘(یوسف:۱۰۸)

ترجمہ:’’کہہ دے یہ میری راہ ہے، بلاتا ہوں اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر میں اور جو میرے ساتھ ہے۔‘‘

۱۰:- ’’وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی۔‘‘ (الحدید:۱۰)

ترجمہ:’’اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے خوبی کا۔ ‘‘


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’إِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِیْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہٖ، فَابْتَعَثَہٗ بِرِسَالَتِہٖ ، ثُمَّ نَظَرَ فِیْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہٖ خَیْرَقُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہٖ یُقَاتِلُوْنَ عَلٰی دِیْنِہٖ ، فَمَا رَأٰی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ وَمَا رَأَوْا سَیِّئًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَيِّئٌ۔‘‘ 

(مسند احمد، رقم الحدیث:۳۴۶۸)

’’اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کو ان سب قلوب میں بہتر پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کردیا، پھر قلب محمد   (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمد   (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کرلیا۔‘‘

۲:-امام احمدv نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوںنے فرمایا:

’’مَنْ کَانَ مُتَأَسِّیًا فَلْیَتَأَسَّ بِأَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَإِنَّہُمْ أَبَرُّ ہٰذِہٖ الْأُمَّۃِ قُلُوْبًا وَأَعْمَقُہَا عِلْمًا وَأَقَلُّہَا تَکَلُّفًا وَأَقْوَمُہَا ہَدْیًا وَأَحْسَنُہَا حَالًا، قَوْمٌ اخْتَارَہُمُ اللّٰہُ بِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ وَإِقَامَۃِ دِیْنِہٖ ، فَاعْرِفُوْا لَہٗ فَضْلَہُمْ وَاتْبَعُوْا آثَارَہُمْ، فَإِنَّہُمْ کَانُوْا عَلَی الْہُدَی الْمُسْتَقِیْمِ۔‘‘               (شرح السفارینی للدرۃ المنیفۃ، ج:۱،ص:۱۲۴)

’’جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ اصحابِ رسول اللہ   (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اقتداء کرے، کیونکہ یہ حضرات ساری اُمت سے زیادہ اپنے قلوب کے اعتبار سے پاک، اور علم کے اعتبار سے گہرے اور تکلف وبناوٹ سے دور اور عادات کے اعتبار سے معتدل، اور حالات کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا ہے۔ تو تم ان کی قدر پہچانو اور اُن کے آثار کا اتباع کرو، کیونکہ یہی لوگ مستقیم طریق پر ہیں۔‘‘

۳:-حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:


’’)اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِيْ أَصْحَابِيْ ، لَاتَتَّخِذُوْہُمْ غَرَضًا مِنْ بَعْدِيْ، فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّہُمْ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَہُمْ ، وَمَنْ أٰذَاہُمْ فَقَدْ أٰذَانِيْ وَمَنْ أٰذَانِيْ فَقَدْ أٰذَی اللّٰہَ، وَمَنْ أٰذَی اللّٰہَ فَیُوْشِکُ أَنْ یَّأْخُذَہٗ۔‘‘                         (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵


 ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملے میں، میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا) نشانہ نہ بناؤ، کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھاتو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی، اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی، اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانا چاہتا ہے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑلے گا۔‘‘

۴:-حضرت عبداللہ بن عمر r سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِذَا رَأَیْتُمُ الَّذِیْنَ یَسُبُّوْنَ أَصْحَابِيْؓ فَقُوْلُوْا: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ۔‘‘  (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵)

 ’’ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ   کو برا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو: خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں (یعنی صحابہؓ اور تم) میں سے بدتر ہیں۔‘‘

ظاہرہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں بدتر وہی ہے جو اُن کو برا کہنے والا ہے۔ اس حدیث میں صحابیؓ    کو برا کہنے والا مستحقِ لعنت قرار دیا گیا ہے۔

۵:- علامہ سفارینیv فرماتے ہیں:

’’اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہؓ    کو پاک صاف سمجھے، ان کے لیے عدالت ثابت کرے، ان پر اعتراضات کرنے سے بچے، اور ان کی مدح وتوصیف کرے، اس لیے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز کی متعدد آیات میں ان کی مدح وثنا کی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اللہ اور اس کے رسول   (صلی اللہ علیہ وسلم) سے صحابہؓ کی فضیلت میں کوئی بات منقول نہ ہوتی تب بھی ان کی عدالت پر یقین اور پاکیزگی کا اعتقاد رکھنا اور اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا کہ وہ نبی   (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد ساری اُمت کے افضل ترین افراد ہیں، اس لیے ان کے تمام حالات اسی کے مقتضی تھے، انہوں نے ہجرت کی، جہاد کیا، دین کی نصرت میں اپنی جان ومال کو قربان کیا، اپنے باپ بیٹوں کی قربانی پیش کی، اور دین کے معاملے میں باہمی خیرخواہی اور ایمان ویقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا۔             (عقیدہ سفارینی ، ج:۲،ص:۳۳۸)

۶:-امام ابوزرعہ عراقی v جو امام مسلم v کے بڑے اساتذہ میں سے ہیں، ان کا یہ قول نقل کیا ہے: 

’’إذا رأیت الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاعلم أنہٗ زندیق وذٰلک أن القرآن حق ، والرسول حق ، وماجاء بہٖ حق، وما أدّٰی ذٰلک إلینا کلہٗ إلا الصحابۃؓ، فمن جرحہم إنما أراد إبطالَ الکتاب والسنۃ ، فیکون الجرح بہ ألیق، والحکم علیہ بالزندقۃ والضلال أقوم وأحق۔‘‘(ج:۲،ص:۳۸۹)

’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام( رضی اللہ عنہم ) میں سے کسی کی بھی تنقیص کررہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، اس لیے کہ قرآن حق ہے، رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) حق ہے، جو تعلیمات آپ  (صلی اللہ علیہ وسلم) لے کر آئے وہ حق ہیں، اور یہ سب چیزیں ہم تک پہنچانے والے صحابہؓ کے سوا کوئی نہیں، تو جو شخص ان کو مجروح کرتا ہے وہ کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتاہے، لہٰذا خود اس کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے، اور اس پر گمراہی اور زندقہ کا حکم لگانا زیادہ قرینِ حق وانصاف ہے۔‘‘

ان آیات اور احادیث میں صرف یہی نہیں کہ اصحابِ رسول کی مدح وثناء اور ان کی رضوانِ الٰہی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے، بلکہ اُمت کو ان کے ادب واحترام اور ان کی اقتداء کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی کو برا کہنے کی سخت وعید فرمائی ہے، ان کی محبت کو رسول اللہ   (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت، ان سے بغض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بغض قرار دیا گیا ہے۔



مزید پڑھیئے

👇👇👇



Ahle Sunnat Wal Jamaat Quetta Balochistan

اھلسنت والجماعت کوئٹہ بلوچستان

aswj


No comments

5359958766365190473