Page Nav

HIDE

Pages

Grid

GRID_STYLE
TRUE
RTL

Classic Header

{fbt_classic_header}

ASWJ - Ahle Sunnat Wal Jamaat Balochistan (Known as SSP / Sipah e Sahaba (RA) Pakistan) Official Website

Breaking News

latest

صحابی

 صحابہ کرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   صحابی کی تعریف لغوی اعتبار سے صحابی، صحبت کا مصدر ہے۔ صحابی کی جمع صحابہ ہے جس کا معنی ہے ساتھی۔ ...

Related Post

 صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ 
لغوی اعتبار سے صحابی، صحبت کا مصدر ہے۔ صحابی کی جمع صحابہ ہے جس کا معنی ہے ساتھی۔
          اصطلاحی مفہوم میں صحابی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے حالت ایمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اس کے بعد ان کی وفات بھی حالت اسلام ہی میں ہوئی ہو۔ صحیح نقطہ نظر کے مطابق اگر کوئی صحابی کچھ عرصے کے لئے مرتد بھی ہو جائے لیکن بعد میں دوبارہ اسلام قبول کر لے تو وہ صحابی ہی کہلائے گا۔
صحابہ کے علم کے کثیر فوائد ہیں۔ فن حدیث میں اس علم کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی بدولت مرسل حدیث کو ترقی دے کر متصل کے درجے تک لایا جا سکتا ہے۔
·       تواتر کے ذریعے جیسے سیدنا ابوبکر و عمر یا دیگر عشرہ مبشرہ کے صحابہ رضی اللہ عنہم۔
·       شہرت کے ذریعے جیسے ضمام بن ثعلبہ اور عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہما۔
·       کسی اور صحابی کی دی ہوئی خبر کے ذریعے کہ یہ صاحب، صحابی ہیں۔
·       کسی ثقہ تابعی کی دی ہوئی خبر کے ذریعے کہ یہ صاحب، صحابی ہیں۔
·       خود ان صاحب کے دعوے کے ذریعے بشرطیکہ وہ قابل اعتماد ہوں اور ان کا صحابی ہونا ممکن ہو (یعنی وہ عہد رسالت میں عرب میں موجود رہے ہوں۔ مثال کے طور پر رتن ہندی کا صحابی ہونے کا دعوی قبول نہ کیا جائے گا کیونکہ اس نے یہ دعوی 600ھ میں کیا تھا۔ ذہبی کہتے ہیں کہ وہ جھوٹا شخص تھا۔) (الميزان جـ 2 – ص 45)
سب کے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل یعنی اچھے کردار کے حامل ہیں خواہ وہ فتنوں کے دور میں ان میں مبتلا ہوئے ہوں یا نہ ہوں۔ ان پر اعتماد کرنے والوں کے اتفاق رائے سے یہ بات طے ہے۔ ان کے عادل ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ کبھی جان بوجھ کر کسی جھوٹی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب نہیں کرتے اور نہ ہی آپ کے حکم سے انحراف کرتے ہیں۔
          اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صحابی کی بیان کی گئی تمام احادیث کو قبول کیا جائے گا اور اس معاملے میں ان کے کردار کو پرکھا نہیں جائے گا۔ ان میں سے جو حضرات فتنوں میں مبتلا ہو گئے (جیسے جنگ جمل و صفین کے فتنےوغیرہ) ، ان کے بارے میں یہ اچھا گمان رکھا جائے گا کہ یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا زمانہ سب سے بہترین تھا اور وہ شریعت پر عمل کرنے والے تھے۔
صحابہ میں چھ صحابی رضی اللہ عنہم کثرت سے حدیث بیان کرنے والے تھے۔
·       ابوہریرہ: ان سے   5374احادیث منقول ہیں اور ان سے300  سے زائد افراد نے احادیث روایت کی ہیں۔
·       عبداللہ بن عمر: ان سے  2630  احادیث مروی ہیں۔
·       انس بن مالک: ان سے  2286  احادیث مروی ہیں۔
·       ام المومنین عائشہ: ان سے  2210  احادیث مروی ہیں۔
·       عبداللہ ابن عباس: ان سے  1660  احادیث مروی ہیں۔
·       جابر بن عبداللہ: ان سے  1540  احادیث مروی ہیں۔
روایت کرنے والے صحابہ میں سب سے بڑے عالم سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ ان کے علاوہ بڑی عمر کے صحابہ میں بھی بڑے علماء گزرے ہیں۔ مسروق کی رائے کے مطابق، "صحابہ کرام میں علم چھ افراد پر ختم ہے اور وہ سیدنا عمر، علی، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو درداء، اور عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم ہیں۔ اس کے بعد ان چھ کا علم سیدنا علی اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما پر ختم ہے۔"
عبادلہ سے مراد وہ صحابہ ہیں جن کا نام عبداللہ ہے۔ ویسے تو عبداللہ نام کے صحابہ کی تعداد تین سو کے قریب ہے لیکن یہ لفظ بول کر چار مخصوص صحابی مراد لئے جاتے ہیں:
·       عبداللہ بن عمر
·       عبداللہ بن عباس
·       عبداللہ بن زبیر
·       عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم
ان چاروں صحابہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب کے سب بڑے عالم تھے اور ان سب نے طویل عمر پائی جس کی وجہ سے ان کا علم ہر طرف پھیل گیا جس کے باعث انہیں امت میں خصوصی مقام اور مرتبہ حاصل ہوا۔ جب یہ چاروں حضرات کسی معاملے میں متفق ہوں تو کہا جاتا ہے کہ "یہ عبادلہ کی رائے ہے۔"
صحابہ کرام کی صحیح تعداد کو متعین کرنا تو مشکل ہے لیکن اس معاملے میں اہل علم کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ان سے استفادہ کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ ان میں مشہور ترین رائے ابن زرعۃ الرازی کی ہے، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے124,000 صحابہ نے علم حاصل کیا اور پھر ان صحابہ سے حدیث روایت کی گئی۔" (التقريب مع التدريب جـ 2 - 2201)
صحابہ کرام کے طبقات کی تعداد کے بارے میں اہل علم میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض اہل علم نے اسلام قبول کرنے کے وقت یا ہجرت کے وقت کے اعتبار سے انہیں طبقات میں تقسیم کیا ہے اور بعض دیگر اہل علم نے اپنے اجتہاد کے مطابق کسی اور بنیاد پر ایسا کیا ہے۔ ابن سعد نے صحابہ کو پانچ طبقات اور حاکم نے بارہ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔
نوٹ: صحابہ کی طبقات میں تقسیم کا مقصد یہ ہے ان کے زمانے یا علم و فضل کے اعتبار سے ان کی پہچان ہو سکے۔ مثال کے طور پر عمر کے اعتبار سے صحابہ کے یہ طبقات بنائے جا سکتے ہیں:
·       رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پہلے پیدا ہونے والے صحابہ جیسے سیدنا حمزہ و عباس رضی اللہ عنہما۔
·       رسول اللہ کے ہم عمر صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر، عثمان رضی اللہ عنہما۔
·       رسول اللہ سے دس پندرہ سال چھوٹے صحابہ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ۔
·       رسول اللہ سے بیس تیس سال چھوٹے صحابہ جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ۔
·       رسول اللہ کی عمر مبارک کے آخری حصے میں پیدا ہونے والے صحابہ جیسے سیدنا حسن و حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم۔
اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے طبقات اس طرح بنائے جا سکتے ہیں:
·       سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر، علی، خدیجۃ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم
·       سابقون الاولون یعنی ابتدائی تین سالوں میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ جیسے سیدنا عثمان، مقداد بن اسود، بلال رضی اللہ عنہما۔
·       ہجرت حبشہ سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ
·       باقی مکی دور میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ
·       انصار کے سابقون الاولون جیسے سیدنا اسعد بن زرارہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہما
·       ہجرت کے بعد اور جنگ بدر سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ
·       جنگ بدر کے بعد اور جنگ احد سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ
·       جنگ احد کے بعد اور صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ
·       صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ جیسے سیدنا خالد بن ولید اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما
·       فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے صحابہ جیسے سیدنا سہیل بن عمرو، عکرمہ بن ابو جہل، ابو سفیان رضی اللہ عنہم
اہل سنت کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ صحابہ میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق اور ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں۔ ان کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق اس کے بعد سیدنا عثمان، اسے کے بعد سیدنا علی، اسے کے بعد باقی عشرہ مبشرہ، اس کے بعد اہل بدر، اس کے بعد اہل احد اور اس کے بعد بیت الرضوان میں شریک ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ ہے۔ (اہل تشیع سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل صحابی قرار دیتے ہیں۔)
·       آزاد مردوں میں: سیدنا ابوبکر صدیق
·       بچوں میں: سیدنا علی
·       خواتین میں: ام المومنین سیدہ خدیجہ
·       آزاد کردہ غلاموں میں: سیدنا زید بن حارثہ
·       غلاموں میں: سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہم
سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی سیدنا عامر بن واثلہ اللیثی ہیں جنہوں نے مکہ میں 100ھ میں وفات پائی۔ اکثر اہل علم کی رائے کے مطابق ان سے پہلے وفات پانے والے آخری صحابی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے 93ھ میں بصرہ میں وفات پائی۔
·       ابن حجر عسقلانی کی "الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ"۔
·       ابن الاثیر کی "اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ"۔
·       ابن عبدالبر کی "الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب"۔
·       سیرت صحابہ پر لکھی گئی کسی کتاب سے کم از کم دس صحابہ کرام کے حالات زندگی کا مطالعہ کیجیے۔
·       طبقات ابن سعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جو طبقات بیان کیے گئے ہیں، ان کی ایک فہرست تیار کیجیے۔

No comments

5359958766365190473