Page Nav

HIDE

Pages

Grid

GRID_STYLE
TRUE
RTL

Classic Header

{fbt_classic_header}

ASWJ - Ahle Sunnat Wal Jamaat Balochistan (Known as SSP / Sipah e Sahaba (RA) Pakistan) Official Website

Breaking News

latest

حضرت طلحہؓ بن عُبَیداللہ

حضرت طلحہؓ بن عُبَیداللہ حضرت حضرت طلحہؓ کی داستانِ زندگی بھی خوب ہے کہ آپؓ سرزمین بُصریٰ میں تجارت کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے کہ و...

Related Post


حضرت طلحہؓ بن عُبَیداللہ



حضرت حضرت طلحہؓ کی داستانِ زندگی بھی خوب ہے کہ آپؓ سرزمین بُصریٰ میں تجارت کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے کہ وہاں انھیں ایک اچھا راہب ملا۔ اُس نے آپؓ کو بتایا کہ جس نبی کے بارے میں انبیاء نے خبر دی ہے اس کا ظہور حرم کی زمین میں ہوگا اور اس کا وقت آگیا ہے۔ یہ سن کر طلحہؓ کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں وہ اس قافلہ میں شامل ہونے سے نہ رہ جائیں کیونکہ یہ ہدایت و رحمت اور نجات کا قافلہ ہے۔
پھر کئی ماہ بعد جب آپؓ واپس اپنے شہر مکہ آئے تو اہل مکہ کے اندر کچھ اشتعال پایا۔ آپؓ جب بھی کسی شخص یا گروہ سے ملتے، تو انھیں اس وحی کے بارے میں باتیں کرتے پاتے جو جناب محمدؐ پر نازل ہوئی تھی۔ حضرت طلحہؓ نے سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ سفر سے واپس آئے ہیں اور ایک فرمانبردار و مطیع مومن کی حیثیت سے حضرت محمدﷺ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
حضرت طلحہؓ نے اپنے دل میں کہا: محمدؐ اور ابوبکرؓ؟ اللہ کی قسم یہ دونوں کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتے! حضرت محمدﷺ عمر کے چالیسویں برس کو پہنچ چکے ہیں اور ہم نے اس دوران ان سے ایک بھی جھوٹ نہیں سنا۔ کیا وہ آج اللہ کے بارے میں جھوٹ کہیں گے کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے اوپر وحی نازل کی ہے؟
حضرت طلحہؓ فوراً حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہؓ کے درمیان کوئی زیادہ دیر گفتگو نہیں ہوئی تھی کہ رسول اللہﷺ سے ملاقات اور آپؐ کے اِتباع کے شوق کی رفتار حضرت طلحہؓ کے دل کی دھڑکن سے بھی تیز ہو چکی تھی۔

حضرت ابوبکرؓ نے ان کو ساتھ لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں آگئے۔ جہاں حضرت طلحہؓ مسلمان ہو کر قافلۂ ایمان میں شامل ہو گئے اور اوّلین مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔ حضرت طلحہؓ اپنی قوم میں اپنے مقام و مرتبہ، دولت کی فراوانی اور منافع بخش تجارت کا مالک ہونے کے باوجود قریش کی تعذیبات کا شکار ہوئے۔ جب انھیں اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کو نوفل بن خویلد کے حوالے کیا گیا جس کو ’’قریش کا شیر‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو سزا میں مبتلا کیے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ قریش کو اپنے اس عمل پر شرمندگی کا احساس ہوا اور اس کے انجام کا خوف بھی لاحق ہوگیا۔
جب مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو حضرت طلحہؓ بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ سوائے غزوۂ بدر کے ہر غزوہ میں شریک رہے۔ غزوۂ بدر میں آپؓ اس لیے شریک نہ ہو سکے تھے کہ رسول اللہﷺ نے آپؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو مدینہ سے باہر کسی مہم پر بھیجا ہوا تھا۔ جب وہ مہم سر کرکے واپس مدینہ آئے تو نبیﷺ اور صحابہؓ غزوۂ بدر سے واپس آ رہے تھے۔ ان دونوں اصحاب کو دلی صدمہ ہوا کہ وہ پہلے ہی غزوہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شرکت کرنے کے اجر سے محروم رہ گئے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے یہ خبر دے کر انھیں مطمئن کردیا کہ جنگ لڑنے والوں کی طرح ان کو بھی پورا پورا اَجر ملے گا بلکہ رسول اللہﷺ نے انھیں بھی مالِ غنیمت میں اسی قدر حصہ دیا جس قدر جنگ میں شرکت کرنے والوں کو دیا تھا۔
٭٭
اب غزوۂ اُحد آیا کہ قریش کی پوری طاقت اور شدت بروئے کار آئے جس طرح وہ یومِ بدر کو جوش میں آئی تھی تاکہ مسلمانوں کو آخری شکست سے دوچار کرکے نیست و نابود کردیا جائے۔سب کچھ پیس کر رکھ دینے والی جنگ فوراً شروع ہو گئی جس نے زمین کو اپنی المناک لپیٹ میں لے لیا اور مشرکین کی بدبختی آگئی۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ کفار اپنا اسلحہ پھینک کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں تو پہاڑی درے پر موجود تیرانداز اپنی جگہوں سے نیچے اتر آئے تاکہ غنائمِ جنگ لوٹ سکیں۔ اُدھر قریش کا لشکر اچانک پیچھے سے حملہ آور ہوا اور عنانِ جنگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔

پھر جنگ نئے سرے سے اپنی شدت و سختی اور ہولناکی کے ساتھ شروع ہو گئی۔ اس اچانک حملہ نے مسلمانوں کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ حضرت طلحہؓ نے اُدھر نظر ڈالی جہاں رسول اللہﷺ کھڑے تھے۔ دیکھا کہ آپؐ شرک و کفر کی قوتوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حضرت طلحہؓ تیزی سے رسول اللہﷺ کی جانب چلے اور اس فاصلے کو عبور کرنے لگے۔ ایک ایسا فاصلہ جس میں دسیوں زہرآلود تلواریں اور جنون زدہ نیزے لہرا رہے تھے۔ حضرت طلحہؓ نے دُور سے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے رخسارِمبارک سے لہو بہہ رہا ہے اور آپؐ سخت تکلیف میں ہیں۔ یہ صورتِ حال حضرت طلحہؓ کو کھا گئی اور آپؓ نے ہولناک فاصلے کو چند چھلانگوں میں ہی طے کر ڈالا جبکہ مشرکین کی چھائیں چھائیں کرتی تلواریں رسول اللہﷺ کو حصار میں لیے ہوئے تھیں اور آپ ﷺ کو کاری ضرب لگانا چاہتی تھیں۔
حضرت طلحہؓ اس خوفناک صورتِ حال میں رسول اللہﷺ کے لیے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔ آپؓ اپنے دائیں بائیں بوٹیاں اڑانے والی تلوار کے وار کر رہے تھے۔ آپؓ نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کا خون بہہ رہا ہے اور آپؐ کی تکلیف بڑھ رہی ہے تو آپﷺ کو سہارا دیا اور اس گڑھے سے باہر نکالا جس میں آپؐ کا پائوں پھسل گیا تھا۔آپؓ اپنے بائیں ہاتھ اور سینے سے رسول اللہﷺ کو سہارا دیے ہوئے تھے اور محفوظ مقام پر لے جا رہے تھے ساتھ ساتھ اپنے دائیں ہاتھ سے تلوار بھی چلا رہے تھے اور ان مشرکوں سے لڑ رہے تھے جو رسول اللہﷺ کو گھیرے ہوئے تھے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ’’جب اُحد کے روز کا ذکر کیا جاتا تو حضرت ابوبکرؓ فرمایا کرتے تھے یہ دن تو سارے کا سارا طلحہؓ کا تھا۔ میں پہلا شخص تھا جو نبیﷺ کے پاس آیا تو آپؐ نے مجھے اور ابوعبیدہؓ بن جراح سے فرمایا: اپنے بھائی کی حالت کو دیکھو! ہم نے دیکھا تو طلحہؓ کے جسم پر نیزے، تلوار اور تیر کے ۸۰ کے قریب زخم تھے۔ان کی ایک انگلی بھی کٹ گئی تھی۔ پھر ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔‘‘

No comments

5359958766365190473