Page Nav

HIDE

Pages

Grid

GRID_STYLE
TRUE
RTL

Classic Header

{fbt_classic_header}

ASWJ - Ahle Sunnat Wal Jamaat Balochistan (Known as SSP / Sipah e Sahaba (RA) Pakistan) Official Website

Breaking News

latest

حضرت ابوایوب انصاریؓ

حضرت ابوایوب انصاریؓ ہجرت کے کامیاب سفر کا اختتام کرتے ہوئے آنحضرتؐ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ دارالہجرت میں مستقبل کے مبارک...

Related Post



حضرت ابوایوب انصاریؓ



ہجرت کے کامیاب سفر کا اختتام کرتے ہوئے آنحضرتؐ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ دارالہجرت میں مستقبل کے مبارک ایام کا آغاز کر رہے تھے۔ رسول اللہﷺ اس جمِ غفیر کی صفوں کے درمیان سے گزر رہے تھے جس کے دل جرأت، محبت اور خوشی سے جوش مار رہے تھے۔ آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ ہر کوئی اونٹنی کی مہار تھامنے کے لیے ہجوم کیے ہوئے تھا کہ رسول اللہﷺ کی مہمان نوازی میں کروں گا۔
سواری بنی سالم بن عوف کے گھروں کے قریب سے گزری تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے اونٹنی کی راہ روک لی کہ: یا رسول اللہﷺ ہمارے پاس قیام فرمائیے۔ ہم نفری والے بھی ہیں اور سازوسامان کے مالک بھی اور دفاع بھی کر سکتے ہیں۔
بنی سالم بن عوف کے لوگ اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تھے کہ رسول اللہﷺ نے انھیں جواب دیا: خلو سبیلھا ، فانھا مامورۃ ’’اس کی راہ چھوڑ دو، یہ حکم کی پابند ہے۔‘‘
اونٹنی بنی سالم بن عوف کے گھروں سے گزر کر بنی بیاضہ کے گھروں پھر بنی ساعدہ کے محلے پھر بنی حارث بن خزرج کے محلے پھر بنی عدی بن نجار کے محلوں اور ان تمام گھروں کے پاس سے گزر رہی تھی جو اس کی راہ میں آ رہے تھے۔ ہر قبیلہ اونٹنی کا راستہ روک رہا تھا کہ رسول اللہﷺ ان کے گھروں میں نزول فرما کر انھیں سعادت بخشیں لیکن رسول اللہﷺ کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور آپؐ فرما رہے تھے: خلو سبیلھا ، فانھا مامورۃ ’’اس کی راہ چھوڑ دو، یہ حکم کی پابند ہے۔‘‘
نبی اکرمﷺ نے اپنے نزول کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا تھا کیونکہ عنقریب اس جائے نزول کو بہت بڑا اعزاز و اکرام ملنے والا تھا۔ اس جگہ وہ مسجد تعمیر ہونا تھی جس سے توحید کی صدائیں اور نور کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر چہار دانگِ عالم میں پھیلنے والی تھیں۔ اس مسجد کے پہلو میں مٹی اور گارے کے وہ حجرے بھی تعمیر ہونا تھے جن کے اندر ’’گزارے‘‘ یا شاید ’’گزارے‘‘ سے بھی کم یعنی دنیاوی زندگی کا ’’ناگزیر‘‘ سامان بھی موجود نہ ہو۔
دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ان کٹیائوں میں انسانیت کے اس معلم اور رسولﷺ نے قیام پذیر ہونا تھا جو اس لیے مبعوث ہوئے تھے کہ زندگی کے جامد ہو چکے جسد میں روح پھونکیں اور شرف و عزت کا حق دار اُن لوگوں کو قرار دیں جو یہ کہیں کہ ’’اللہ ہمارا رب ہے‘‘ اور پھر اس پر ثابت قدم ہو جائیں، یعنی ’’وہ لوگ جو اپنے ایمانوں کو ظلم کے ساتھ نہیں ملاتے۔‘‘ ہاں وہ جنھوں نے دین کو اللہ کے لیے خالص کر لیا تھا۔ جی ہاں وہ خیرخواہ ِ انسانیت کو زمین میں اصلاح کرنا چاہتے تھے، فساد برپا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
رسول اللہﷺ نے اونٹنی کے ٹھہرنے کا معاملہ مکمل طور پر اس ذاتِ قدیر کے حوالے کر رکھا تھا جو آپؐ کی رہنمائی کر رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے اونٹنی کی نکیل چھوڑ دی تھی۔ آپؐ اس کی نکیل کھینچ کر اس کا رخ کسی طرف موڑتے تھے نہ اس کے قدم روکتے۔ آپؐ کا قلبِ اطہر اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ تھا۔ آپؐ کی زبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے: اللھم خرلی و اخترلی ’’اے اللہ! میرے لیے انتخاب فرما اور بہترین انتخاب فرما۔‘‘
بالآخر اونٹنی مالک بن نجار کے گھر کے سامنے آ کر بیٹھ گئی پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور مکان کے گرد چکر لگایا۔ پھر اسی جگہ واپس آگئی جہاں بیٹھی تھی اور پہلو زمین پر لگا دیا۔ پھر وہیں سکون سے بیٹھی رہی یہاں تک کہ رسول اللہﷺ خوش و خرم اس سے نیچے اتر آئے۔ اس موقع پر ایک مسلمان آگے بڑھتا ہے، اس کا چہرہ خوشی و سعادت سے چمک رہا ہے۔ وہ آگے بڑھتا ہے اور اونٹنی کا کجاوہ اٹھا کر اپنے گھر کے اندر لے جا کر رکھ دیتا ہے۔ پھر رسولِ رحمتﷺ سے درخواست کرتا ہے کہ آپؐ اس گھر میں قدم رنجہ فرمائیں۔ رسول اللہﷺ اپنا سعادت و برکت سے معمور دامن لے کر آدمی کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہو جاتے ہیں۔
حضرات! کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ خوش نصیب مسلمان کو ن تھا جس کے گھر کے سامنے اونٹنی بیٹھی تھی اور رسول اللہﷺ اس آدمی کے مہمان بنے تھے اور تمام کے تمام اہلِ مدینہ اس آدمی کی بلند بختی و سعادت مندی کو رشک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے؟ سنیے! یہ مسلمان، ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ’’ابوایوب انصاریؓ‘‘ یعنی مالک بن نجار کے پوتے ’’حضرت خالدؓ بن زید‘‘ ہیں۔

No comments

5359958766365190473