Page Nav

HIDE

Pages

Grid

GRID_STYLE
TRUE
RTL

Classic Header

{fbt_classic_header}

ASWJ - Ahle Sunnat Wal Jamaat Balochistan (Known as SSP / Sipah e Sahaba (RA) Pakistan) Official Website

Breaking News

latest

حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب

حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب لاکت کے سال ’’عام الرمادہ‘‘ میں جب انسان و حیوان اور نباتات و جمادات سخت قحط کا شکار ہو گئے تو امیرالمؤمنین ...

Related Post



حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب
لاکت کے سال ’’عام الرمادہ‘‘ میں جب انسان و حیوان اور نباتات و جمادات سخت قحط کا شکار ہو گئے تو امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کھلی فضا میں مسلمانوں کے ساتھ نماز استسقا پڑھنے اور اللہ رحیم و کریم سے باران رحمت کے لیے گڑگڑا کر دعا کرنے کے لیے باہر نکلے۔
پھر حضرت عمرؓ ایک مقام پر کھڑے ہو گئے اور اپنے دائیں ہاتھ سے حضرت عباسؓ کا دایاں ہاتھ تھام کر آسمان کی طرف بلند کرکے دعاگو ہوئے:
’’اے اللہ! پہلے ہم تیرے نبیﷺ کی وساطت سے تجھ سے بارش کی دعا کرتے تھے اور اس وقت نبیﷺ ہمارے درمیان موجود تھے۔
اللہ! آج ہم تیرے نبیﷺ کے چچا کی وساطت سے بارش طلب کرتے ہیں، اللہ! ہم پر بارش برسا!‘‘
مسلمان ابھی یہاں سے ہل نہیں پائے تھے کہ بارش آ گئی اور اس قدر برسی کے چہروں پر تازگی کی لہر دوڑا دی، ہر طرف پانی پانی کردیا اور زمین کو سرسبز و شاداب کر ڈالا۔

صحابہؓ حضرت عباسؓ کے پاس گئے، ان سے بغل گیر ہونے لگے، ان کی پیشانی کے بوسے لینے لگے اور یہ کہتے ہوئے ان کو بابرکت قرار دینے لگے:
’’اے (اہل) حرمین کی پیاس بجھانے والے شکریہ!‘‘
٭٭
حضرت عباسؓ جس قدر رسول اللہﷺ سے محبت رکھتے تھے رسول اللہﷺ بھی اسی قدر ان کو عزت و اکرام دیتے تھے۔ آپؐ ان کی تعریف و ستائش کرتے اور ان کی خوبیوں کا ذکر جمیل فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ فرماتے:
’’یہ میرے باپ دادا کی نشانی ہیں۔‘‘ ’’یہ عباس ؓبن عبدالمطلب ہیں قریش کے سب سے بڑے سخی اور رشتوں کا سب سے زیادہ لحاظ رکھنے والے۔‘‘

جس طرح حضرت حمزہؓ رسول اللہﷺ کے چچا بھی تھے اور ہم جولی بھی، اسی طرح حضرت عباسؓ آپؐ کے چچا بھی تھے اور ہم عمر بھی۔
رسول اللہﷺ اور حضرت عباسؓ کی عمروں میں دو یا ۳ سال کا فرق ہے، حضرت عباسؓ رسول ﷺ سے ۳ سال بڑے تھے۔ اس طرح رسول اللہﷺ اور آپؐ کے چچا عباسؓ ایک ہی عمر کے بچے اور ایک ہی نسل کے جوان تھے۔

ایک اور چیز جس کو انسانیت کے پرکھنے میں نبی ﷺ کے نزدیک ہمیشہ اولین حیثیت حاصل رہی وہ حضرت عباسؓ کا اخلاق اور اچھی صفات تھیں۔
حضرت عباسؓ سخی تھے، بہت بڑے سخی… گویا وہ ان اچھی خوبیوں کے بھی چچا ہی تھے۔ آپؓ رشتہ داروں اور اہل و عیال کے ساتھ جڑ کر رہنے والے انسان تھے۔ ان دونوں کے رشتوں کا لحاظ رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں آپؓ اپنے مال و متاع یا سعی و جہد اور اثرورسوخ میں سے کسی بھی اعتبار سے بُخل نہیں کرتے تھے۔ آپؓ عام رشتہ داری اور خاندانی قرابت داری کے معاملے میں حد درجہ دانشمندی سے کام لیتے تھے۔ آپؓ کی اسی دانشمندی و ذہانت نے آپؓ کو قریش کے درمیان بلند مقام سے سرفراز کر رکھا تھا۔

یہاں تک کہ جب رسول اللہﷺ نے دعوت کا برملا اظہار کیا تو حضرت عباسؓ اس قابل تھے کہ رسول اللہﷺ کو پہنچائی جانے والی بہت سی تکلیفوں کو آپؐ سے رفع کر سکیں۔
٭٭

رسول اللہﷺ کے خادم حضرت ابورافعؓ کہتے ہیں:
’’میں عباسؓ بن عبدالمطلب کا نوکر تھا اور اس وقت اسلام اس گھر کے افراد میں داخل ہو چکا تھا۔ عباسؓ مسلمان ہو گئے، ان کی بیوی ام فضل مسلمان ہو گئیں اور میں بھی مسلمان ہو گیا مگر عباسؓ اپنا اسلام چھپا کر رکھتے تھے۔‘‘

حضرت ابورافعؓ کی یہ روایت غزوۂ بدر سے قبل حضرت عباسؓ کے قبولیت اسلام کی وضاحت کرتی ہے۔ رہی بات ہجرت نبویؐ کے بعد مکہ میں ان کے ٹھہرے رہنے کی تو یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی جس نے بہترین طریقے سے اپنے اہداف کو حاصل کیا۔ قریش حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کے ارادوں میں شکوک و شبہات کو کب چھپا رہنے دے سکتے تھے مگر مسئلہ یہ تھا کہ جناب عباسؓ کے مقابل میں آنے کا بھی ان کے پاس کوئی جواز نہ تھا۔
کیونکہ بظاہر ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اسی دین اور طریقے پر تھے جس کو قریش پسند کرتے تھے۔ یہاں تک کہ غزوۂ بدر کا موقع آگیا اور قریش کو حضرت عباسؓ کے دل میں چھپے ارادوں کا امتحان لینے کا موقع مل گیا۔ جناب عباسؓ قریش کی اس مکروہ تدبیر سے بھلا کب لا علم رہنے والے تھے۔

No comments

5359958766365190473