Page Nav

HIDE

Pages

Grid

GRID_STYLE
TRUE
RTL

Classic Header

{fbt_classic_header}

ASWJ - Ahle Sunnat Wal Jamaat Balochistan (Known as SSP / Sipah e Sahaba (RA) Pakistan) Official Website

Breaking News

latest

شان حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ

شان حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ   علامہ منیر احمد یوسفی امیر المو¿منین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ واقعہ فیل کے 16 سال بعد پیدا ہوئے۔ آ...

Related Post


شان حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ  
علامہ منیر احمد یوسفی


امیر المو¿منین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ واقعہ فیل کے 16 سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ¿ نسب آٹھویں پشت میں رسول کریم سے جا ملتا ہے جس کی تفصیل اِس طرح ہے (عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی)کعب کے دو بیٹے تھے مرہ اور عدی۔ مرہ کی اَولاد میں سے حضرت سیّدنا و مولانا نبی کریم ہیں جبکہ عدی کی اَولاد سے امیر المو¿منین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ ہیں۔جب رسولِ کریم نے اِعلانِ نبُوت فرمایا تو اُس وقت امیر المو¿منین حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ کی عمر 24 سال تھی۔ اعلانِ نبوت کے 6 سال بعد آپ مشرف بہ اِسلام ہوئے۔


حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے: نبی کریم نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا: ”اے میرے اللہ اِسلام کو ابو جہل عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزّت عطا فرما۔ سو اللہ تعالیٰ نے (حضرت) عمر بن خطاب کی صورت میں اس دعا کو تعبیربخشی اور وہ نبی کریم کی خدمتِ اَقدس میں صبح صبح حاضر ہوئے اور اِسلام قبول فرمایا۔ پھر مسجد میں علی الاعلان نماز اَدا کی گئی۔“ (دُرِمنثور‘ مشکوٰة‘ ترمذی)


حضرت ابنِ سعدؒ نے حضرت صہیبؓ سے روایت کی ہے‘ فرماتے ہیں ”جب (حضرت) عمرؓ اِیما ن لائے تو اِسلام ظاہر ہُوا اور لوگوں کو کھلم کھلا اِسلام کی طرف بُلایا جانے لگا اور بیت اللہ (شریف) کے گرد بیٹھنے‘ خانہ کعبہ کا طواف کرنے‘ مشرکین سے بدلہ لینے اور اُن کا جواب دینے کے قابل ہوئے۔


رسول کریم نے اِرشاد فرمایا: ”نہیںہے کوئی نبی مگر اِس طرح کہ اُس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ ہمارے آسمانی وزیر (حضرت) جبرائیلؑ اور (حضرت) میکائیلؑہیں اور زمین والوں میں سے ہمارے دو وزیر (حضرت) ابوبکرؓ اور (حضرت) عمرؓ ہےں۔“


حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ کے بارے میں سرکارِ کائناتکا اِرشادِ گرامی ہے جسے حضرت ابوہریرہؓ نے بیان فرمایا ہے کہ: ”اور تم سے پہلی اُمتوں میں اِلہام والے لوگ تھے تو اگر میری اُمّت میں کوئی ہوا تو وہ (حضرت) عمرؓ ہیں۔“ (بخاری، مسلم)۔اِس اِرشادِ مبارک کی روشنی میں تحریر ہے کہ جب جنگِ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے مقابلے اور دیگر جنگوںمیں سات سو حفاظ صحابہ کرامؓ شہید ہو گئے تو سیّدنا عمر فاروقؓ امیرالمو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ و قراءحضرات شہید ہوگئے ہیں (اُن کے دِل میں یہ بات پیدا ہوئی‘ یقیناً یہ اِلہام اِلٰہی تھا جس کے وہ مستحق تھے‘کہنے لگے) میں ڈرتا ہوں کہ اگر اِسی طرح جنگوں میں حفاظِ کرام شہید ہوتے رہے تو یہ ختم ہو جائیں گے اور اِس طرح بہت سا قرآنِ مجید جاتا رہے گا۔ (اُن کا یہ کہا اِنَّالَہ¾ لَحَافِظُو±نَ کے خلاف نہ تھا بلکہ حفاظتِ قرآنِ مجید کے لئے اِلہامی تجویز تھی جو امیر المو¿منین ابوبکر صدیقؓ سے بیان کی گئی کہ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپؓ قرآنِ مجید کو اَکٹھا کرنے کا حکم فرما دیجئے۔ (اگرچہ قرآنِ مجید سینوں میں ترتیب کے ساتھ جمع تھا تحریری صورت میں یکجا نہیں تھا) مگر امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا ”جوکام رسول اﷲ نے نہیں کیا تم کیسے کرو گے؟ (حضرت) عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم یہ اَچھا کام ہے۔“ (اِس میں بڑی مصلحت ہے)۔


امیر المو¿منین حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں‘ حضرت سیّدنا عمرؓ برابر مجھے اِس کام کے لئے کہتے رہے۔ ”یہاں تک اﷲ (تعالیٰ) نے اِس کام کے لئے میرا سینہ کھول دیا۔“ مجھ کو بھی یہ کام مناسب نظر آیا۔ ”میری رائے بھی وہی قرار پائی جو (حضرت) عمرؓ کی تھی“ یا ”میں نے بھی وہی دیکھا ہے جو (امیر المو¿منین حضرت) سیّدنا عمرؓ نے دیکھا ہے۔“


حضرت عمر فاروقؓ کی عظمت و شان اور رُعب و دبدبہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض نام سے قیصر و کسریٰ کے ایوانِ حکومت میں لرزہ پیدا ہو جاتا تھا۔ دوسری طرف تواضع اور خاکساری کا یہ عالم تھا کہ کاندھے پر مشک رکھ کر بیوہ عورتوں کے لئے پانی بھرتے تھے۔ مجاہدین کی بیویوں کا سودا سلف خرید کر لا دیتے تھے۔ پھر اِس حالت میں تھک کر مسجد کے گوشے میں فرشِ خاک پر لیٹ جاتے تھے۔


حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ عفو و درگزرکا پیکر تھے۔ ایک مرتبہ حر بن قیس اور عنبہ بن حصن حاضر خدمت ہوئے۔ عنبہ نے کہا آپ اِنصاف سے حکومت نہیں کرتے۔ حضرت سیّدنا عمر فاروق ؓ اُس کی بات پر سخت غضبناک ہوئے۔ حر بن قیس نے کہا امیر المو¿منین قرآنِ مجید میں آیا ہے: ”عفو سے کام لو اور نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔“ یہ شخص جاہل ہے اِس کی بات کا خیال نہ کیجئے۔ اِس گفتگو سے امیر المو¿منین حضرت عمر فاروقؓ کا غصہ بالکل جاتا رہا۔ (کنزالعمال)


حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ نے فریضہ¿ خلافت کی حیثیت سے رفاہِ عامہ اور بنی نوع اِنسان کی بہبود کے جو کام کئے ہیں‘ اُن کی تفصیل بیان کرنا آسان نہیں۔ ذاتی حیثیت سے بھی اُن کا ہر لمحہ خلق اللہ کی نفع رسانی کے لئے وقف تھا۔ آپ کا معمول تھا کہ راتوں کو عموماً گشت کرتے تھے تاکہ عام لوگوں کا حال معلوم ہو۔ ایک مرتبہ گشت کرتے ہوئے مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام حرا پہنچے‘ دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقتِ حال دریافت کی۔ عورت نے کہا ”بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں‘ میں نے اُن کے بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھا دی ہے۔ امیر المو¿منین حضرت عمر فاروقؓ اُسی وقت مدینہ منورہ آئے آٹا‘ گھی‘ گوشت اور کھجوریں لیں اور گٹھڑی اُٹھا کر دینے چلے تو امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے غلام اسلم نے کہا میں لے کر چلتا ہوں۔ فرمایا: قیامت کے دن تم میرا بوجھ نہیں اُٹھاﺅ گے۔ اور خود ہی سارا سامان لے کر عورت کے پاس گئے۔ اُس کیلئے کھانا پکانے کا اِنتظام کیا۔


عہد فاروقیؓ میں شاہ و گدا‘ اَمیر وغریب‘ مفلس و مالدار سب ایک حال میں نظر آتے تھے۔ عمّال کو تاکیدی حکم تھا کہ وہ کسی طرح کا اِمتیاز و نمود اِختیار نہ کریں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے خود ذاتی حیثیت سے بھی مساوات کو اپنا خاص شعار بنا رکھا تھا۔خود نمونہ بن کر مسلمانوں کو مساوات کا اَیسا درس دیا کہ حاکم و محکوم اور آقا و غلام کے سارے اِمتیازات اُٹھ گئے ۔دوسروں کا محاسبہ اور مواخذہ کرنے سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ خود اپنا محاسبہ کرتے اور اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے مواخذہ کے لئے پیش کرتے تھے۔حضرت سیّدنا عمر فاروقؓ یہ بھی جانتے تھے کہ سربراہِ مملکت کا اِحتساب اُس کی ذات تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ اِس میں اُس کے اہل وعیال بھی برابر کے شریک ہونے چاہئیں۔


حضرت عمرؓ کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ باہر سے کسی نابالغ لڑکے کو مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک مرتبہ حاکم کوفہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے کوفہ سے آپ کو لکھا کہ یہاں ایک بہت ہی ہوشیار اور کاریگر لڑکا موجود ہے‘ اُس کو بہت ہُنر آتے ہیں۔ لوہار اور بڑھئی کا کام خوب اچھی طرح جانتا ہے‘ نقاشی بہت عمدہ کرتا ہے۔ اگر آپ اُس کو مدینہ منورہ میں داخل ہونے کی اِجازت دیں تو کیا اُس کو مدینہ منورہ روانہ کر دوں؟ تاکہ وہاں پہنچ کر اہل مدینہ کے کام آ سکے۔ آپ نے اُس لڑکے کو مدینہ منورہ میں داخلہ کی اِجازت دے دی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے کوفہ میں اُس پر سو درہم کا خراج (ٹیکس) عائد کر رکھا تھا۔ یہاں مدینہ منورہ میں آ کر اُس نے امیر المو¿منین عمر فاروقؓ سے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی شکایت کی کہ اُنہوں نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس لگا دیا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ٹیکس زیادہ نہیں ہے۔ امیر المو¿منین حضرت عمرؓ کا جواب اُس کو بہت ہی ناگوار گزرا اور غصّہ سے تلملاتا ہُوا واپس آ گیا ۔ ابولولوہ نامی لڑکے نے دل میں رنج باقی رکھا تھا وہ آستین میں خنجر چھپا کر مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ جماعت کھڑی ہونے پرصف میںآپ کے بالکل مقابل آ کر اس نے آپ کے شانے اور پہلو¿ پر خنجر سے دووارکئے جس سے آپ گر پڑے۔ اِس کے بعد اُس نے اور نمازیوں پر حملہ کیا اور تیرہ اَفراد کو زخمی کر دیا ۔ اِس دوران ایک عراقی نے پکڑنے کیلئے اُس پر کپڑا ڈال دیا ۔ جب ابو لولوہ اُس کپڑے میں اُلجھ گیاتو اُس نے اُسی وقت خود کشی کر لی۔ (تاریخ الخلفا) شہادت کے بعدآپ کو نبی کریم کے پیارے یارِ غار حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

No comments

5359958766365190473